وراثت کے متعلق سوالات

  • Admin
  • Nov 16, 2021

والدین باقی اولاد کو محروم کر کے جائیداد ایک بیٹے کے نام کر دیں‌ تو کیا حکم ہے؟

جواب :

آپ کے والدین نے باقی اولاد کو محروم کر کے ان کے ساتھ زیادتی کی، وہ خدا تعالیٰ کے حضور اس سلسلے میں جوابدہ ہیں۔ اسلام نے والدین کو سختی سے روکا ہے کہ وہ ساری نوازشات ایک بیٹے یا بیٹی پر نہ کریں، اگر اپنی زندگی میں کچھ وقف کر رہے ہیں تو ساری اولاد میں انصاف کریں۔ ایک صحابی نے اپنی اولاد میں سے کسی ایک بیٹے کو غلام دے دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا کہ واپس لے لو کیونکہ انہوں نے باقی بیٹوں کو نہیں دیا تھا۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ :

أَنَّ أَبَاهُ أَتَی بِهِ إِلَی رَسُولِ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَ إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي هَذَا غُلَامًا فَقَالَ أَکُلَّ وَلَدِکَ نَحَلْتَ مِثْلَهُ قَالَ لَا قَالَ فَارْجِعْهُ.

ان کے والد ماجد انہیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو غلام دے دیا ہے۔ فرمایا کہ کیا تم نے اپنے ہر بیٹے کو ایسا ہی (غلام) دیا ہے؟ عرض کی کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر اس سے بھی واپس لے لو۔

بخاري، الصحیح، کتاب الہبة وفضلها، باب الهبة للولد وإذا أعطی بعض ولده شیئا لم یجز حتی یعدل بینهم ویعطي الآخرین، 2: 913، رقم: 2446، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة

مسلم، الصحیح، کتاب الهبات، باب کراهة تفضیل بعض الأولاد في الهبة، 3: 1241، رقم: 1623، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي

ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے ایک بیٹے کو عطیہ دے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گواہ بنانا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن اﷲ تعالیٰ سے ڈرنے اور اولاد کے درمیان انصاف کرنے کا فرمایا، حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ عَامِرٍ قَالَ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیرٍ وَهُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ یَقُولُ أَعْطَانِي أَبِي عَطِیَّةً فَقَالَتْ عَمْرَةُ بِنْتُ رَوَاحَةَ لَا أَرْضَی حَتَّی تُشْهِدَ رَسُولَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فَأَتَی رَسُولَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَ إِنِّي أَعْطَیْتُ ابْنِي مِنْ عَمْرَةَ بِنْتِ رَوَاحَةَ عَطِیَّةً فَأَمَرَتْنِي أَنْ أُشْهِدَکَ یَا رَسُولَ اﷲِ قَالَ أَعْطَیْتَ سَائِرَ وَلَدِکَ مِثْلَ هَذَا قَالَ لَا قَالَ فَاتَّقُوا اﷲَ وَاعْدِلُوا بَیْنَ أَوْلَادِکُمْ قَالَ فَرَجَعَ فَرَدَّ عَطِیَّتَهُ.

حضرت عامر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے سنا کہ وہ منبر پر فرماتے تھے کہ میرے والد ماجد نے مجھے ایک عطیہ دیا تو حضرت عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گواہ نہ بناؤ۔ یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے کہ میں نے اپنے بیٹے کو جو عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہما سے ہے ایک عطیہ دیا ہے۔ یا رسول اللہ! وہ مجھ سے کہتی ہے کہ آپ کو گواہ بناؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اپنے تمام بیٹوں کو ایسا ہی دیا ہے؟ عرض گزار ہوئے کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔ پھر وہ واپس لوٹ آئے اور اپنا عطیہ واپس لے لیا۔

بخاري، الصحیح، کتاب الهبة وفضلها، باب الإشهاد فی الهبة، 2: 914، رقم: 2447

ابن أبي شیبة، المصنف، کتاب الوصایا، باب: في الرجل یفضل بعض ولده علی بعض، 6: 233، رقم: 30989، الریاض: مکتبة الرشد

ایک روایت میں ہے کہ حضرت حاجب بن مفضل بن مہلب رضی اللہ عنہ کے والد ماجد نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اعْدِلُوا بَیْنَ أَبْنَائِکُمْ، اعْدِلُوا بَیْنَ أَبْنَائِکُمْ، اعْدِلُوا بَیْنَ أَبْنَائِکُمْ.

اپنے بیٹوں میں انصاف کرو، اپنے بیٹوں میں انصاف کرو، اپنے بیٹوں میں انصاف کرو۔

سنن ابو داود میں الفاظ یہ ہیں:

اعْدِلُوا بَیْنَ أَوْلَادِکُمْ اعْدِلُوا بَیْنَ أَبْنَائِکُمْ.

اپنی اولاد میں انصاف کرو، اپنے بیٹوں میں انصاف کرو۔

أحمد بن حنبل، المسند، 4: 278، رقم: 18475، مصر: مؤسسة قرطبة

أبي داود، السنن، کتاب الإجارة، باب في الرجل یفضل بعد ولده في النحل، 3: 293، رقم: 3544، دار الفکر

مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ والدین کو اولاد میں عدل وانصاف کرنا چاہیے نہ کہ کسی ایک کا حق تلف کر کے دوسروں کو ہبہ کر دینا چاہیے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح فرما دیا کہ اولاد میں نا انصافی نہ کرو اور اﷲ سے ڈرو تاکہ باقی اولاد اپنے حقوق سے محروم نہ ہو۔ گھر میں والد بطور سرپرست اپنی بیوی اور بچوں کا نگران ہوتا ہے، اگر والد اپنی نگرانی میں موجود افراد کے ساتھ ظلم کرے گا تو عند اﷲ جوابدہ ہو گا کہ اُس نے اپنے ماتحت افراد کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟ اگر اس نے کسی کی حق تلفی کی ہو گی تو گناہگار اور مستحقِ سزا ہو گا۔ حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ أَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِیَّتِهِ فَالْإِمَامُ الَّذِي عَلَی النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِیَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَی أَهْلِ بَیْتِهِ وَهُوَ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِیَّتِهِ وَالْمَرْأَةُ رَاعِیَةٌ عَلَی أَهْلِ بَیْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْؤُولَةٌ عَنْهُمْ وَعَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلَی مَالِ سَیِّدِهِ وَهُوَ مَسْؤُولٌ عَنْهُ أَلَا فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِیَّتِهِ.

حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خبردار ہو جاؤ کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد (رعایا) کے بارے میں پوچھا جائے گا (یعنی ہر کوئی ذمہ داری کا جوابدہ ہو گا)۔ لہٰذا امام لوگوں کی طرف سے نگران ہے اور اس سے اُن لوگوں کے بارے میں پوچھا جائے گا جو اُس کے ماتحت تھے اور ہر آدمی اپنے گھر والوں کا نگران ہے اور اُس سے اُس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کے لیے نگران ہے اور اُس سے اُن کے بارے میں پوچھا جائے گا اور آدمی کا غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اور اُس سے اُس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے او رہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

بخاري، الصحیح، کتاب الأحکام، باب قول ﷲ تعالی{أطیعوا الله وأطیعوا الرسول وأولی الأمر منکم} 6: 2611، رقم: 6719

مسلم، الصحیح، کتاب الإمارة، باب فضیلة الإمام العادل وعقوبة الجائر والحث علی الرفق بالرعیة والنهي عن إدخال المشقة علیهم، 3: 1459، رقم: 1829

(اس حدیث مبارکہ کو محدثین کی کثیر تعداد نے بیان کیا ہے)

اپنے ماتحت افراد کے حقوق میں خیانت کرنے والے شخص پر جنت حرام ہے۔ اگر والد اپنے ماتحت افراد کے حقوق میں خیانت کرے گا تو اسی حکم میں ہو گا۔

حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: عَادَ عُبَیْدُ اﷲِ ابْنُ زِیَادٍ مَعْقِلَ بْنَ یَسَارٍ الْمُزنِيَّ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِیهِ قَالَ مَعْقِلٌ: إِنِّي مُحَدِّثُکَ حَدِیثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم. لَوْ عَلِمْتُ أَنَّ لِي حَیَاةً مَا حَدَّثْتُکَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم یَقُولُ مَا مِنْ عَبْدٍ یَسْتَرْعِیهِ اﷲُ رَعِیَّةً، یَمُوتُ یَوْمَ یَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لِرَعِیَّتِهِ، إِلَّا حَرَّمَ اﷲُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ.

عبید اللہ بن زیاد حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کے مرض الموت میں ان کی عیادت کے لیے آیا تو حضرت معقل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تم کو ایک ایسی حدیث سنا رہا ہوں جس کو میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے اور اگر مجھے یہ خیال ہوتا کہ میں ابھی کچھ عرصہ اور زندہ رہوں گا تو میں تم کو یہ حدیث نہ سناتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کا حاکم بنایا ہو اور وہ اس کے حقوق میں خیانت کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دے گا۔

مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب وعید من اقتطع حق المسلم بیمین فاجرة بالنار، 1: 122، رقم: 137، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي

ہماری رائے میں اگر آپ والدین کے ساتھ نیکی کرنا چاہتے ہیں اور ان کو آخرت کی سختیوں سے بچانا چاہتے ہیں تو ان کا ترکہ تمام اولاد میں تقسیم کریں۔ کیونکہ جو لوگ وراثت کا مال اپنے قبضے میں رکھنے کے لئے مختلف حیلے بہانے کرتے ہیں اور دوسرے ورثاء کو وراثت سے محروم کرتے ہیں، اُن کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّاo وَّ تُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّاo

اور میراث کا مال ہپ ہپ کھاتے ہو۔ اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہو۔

الفجر، 89: 19، 20

والدین کے ہبہ کے بعد اگرچہ قانوناً آپ کے بہن بھائی اس وراثت میں حصہ دار نہیں ہیں، تاہم درج بالا آیات و روایات اور عقل و اخلاق کی روشنی میں آپ انہیں وراثت میں شریک کریں۔ یہ آپ کی اپنے ساتھ اور اپنے والدین کے ساتھ بہت بڑی نیکی ہوگی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری

 

متوفی کے ذمے واجب الادا قرض کی ادائیگی کس کے ذمہ داری ہے؟

جواب:

کسی شخص کی وفات پر اس کے ترکہ میں سے کفن دفن کے بعد اس کے ذمے واجب الادا قرض کی ادائیگی کی جائے گی۔ لیکن جو لوگ قرض کا دعویٰ کریں ان کے پاس ثبوت ہونا ضروری ہے۔ بغیر ثبوت کے ان کا دعویٰ رد کر دیا جائے گا۔ اگر قرض ثابت ہو جائے تو ترکہ میں سے اولاً قرض ادا کیا جائے گا اس کے بعد اگر کچھ بچے گا تو ورثاء میں شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔ اگر مرنے والے نے کوئی ترکہ یا وراثت نہیں چھوڑی تو ورثاء اس کے ذمے قرض ادا کریں گے۔ اگر ورثاء قرض ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو قرض خواہوں کی چاہیے کہ یا تو انہیں مہلت دیں یا قرض معاف کر دیں۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَن تَصَدَّقُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ.

اور اگر قرض دار تنگدست ہو تو خوشحالی تک مہلت دی جانی چاہئے، اور تمہارا (قرض کو) معاف کر دینا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں معلوم ہو (کہ غریب کی دل جوئی اﷲ کی نگاہ میں کیا مقام رکھتی ہے)۔

البقرة، 2: 280

اگر ورثاء قرض ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو قرض خواہوں کو انہیں جس قدر ممکن ہو مہلت دینی چاہیے، اگر قرض خواہ مرنے والے کے یتیم بچوں اور بیوہ کی کسمپرسی کو دیکھتے ہوئے انہیں قرض معاف کردیں، یا اس کا کچھ حصہ معاف کر دیں تو یہ بلاشبہ بہت بڑی نیکی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری

 

کیا وراثت کے حقدار صرف لڑکے ہوتے ہیں؟

جواب:

وراثت کے حقدار صرف لڑکے نہیں ہوتے بلکہ لڑکیاں بھی وراثت کی حقدار ہوتی ہیں۔ اگر ماں یا والدین میں سے کوئی بھی اپنی جائیداد اپنے بیٹوں کے نام کر دے اور بیٹیوں کو اس سے محروم رکھے تو یہ اسلام میں ناجائز ہے اور یہ ظلم عظیم ہے۔ والدین گنہگار ہونگے، قرآن مجید میں وراثت کے احکام بڑے واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ جن میں مرد و خواتین دونوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں۔ وراثت کے احکام تفصیل سے پڑھنے اور جاننے کے لیے سورۃ النساء کی آیات 11، 12 اور 13 کا مطالعہ فرمائیں۔

11. يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَآؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لاَ تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعاً فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا.

(النِّسَآء ، 4 : 11)

11. اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لئے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے، اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے، اور مُورِث کے ماں باپ کے لئے ان دونوں میں سے ہر ایک کو ترکہ کا چھٹا حصہ (ملے گا) بشرطیکہ مُورِث کی کوئی اولاد ہو، پھر اگر اس میت (مُورِث) کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث صرف اس کے ماں باپ ہوں تو اس کی ماں کے لئے تہائی ہے (اور باقی سب باپ کا حصہ ہے)، پھر اگر مُورِث کے بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لئے چھٹا حصہ ہے (یہ تقسیم) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہو گی)، تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ فائدہ پہنچانے میں ان میں سے کون تمہارے قریب تر ہے، یہ (تقسیم) اللہ کی طرف سے فریضہ (یعنی مقرر) ہے، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہےo

12. وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلاَلَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ فَإِن كَانُواْ أَكْثَرَ مِن ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَآ أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَآرٍّ وَصِيَّةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ.

(النِّسَآء ، 4 : 12)

12. اور تمہارے لئے اس (مال) کا آدھا حصہ ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو تمہارے لئے ان کے ترکہ سے چوتھائی ہے (یہ بھی) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد، اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد، اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کی وراثت تقسیم کی جا رہی ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئی اولاد اور اس کا (ماں کی طرف سے) ایک بھائی یا ایک بہن ہو (یعنی اخیافی بھائی یا بہن) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے، پھر اگر وہ بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ تقسیم بھی) اس وصیت کے بعد (ہو گی) جو (وارثوں کو) نقصان پہنچائے بغیر کی گئی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد، یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے، اور اللہ خوب علم و حلم والا ہےo

13. تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ.

(النِّسَآء ، 4 : 13)

13. یہ اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں ہیں، اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمانبرداری کرے اسے وہ بہشتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے، اور یہ بڑی کامیابی ہےo

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی